١. اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ صرف ایک دفعہ اللّٰہ اکبر کہ سکتی ہے اور نہانے کی گنجائش نہیں تب بھی نماز واجب ہو جاتی ہے اس کی قضا پڑھنی چاہیے اور رمضان شریف میں اگر رات کو پاک ہوئی اور اتنی ذرا سی رات باقی ہے جس میں ایک دفعہ اللّٰہ اکبر بھی نہیں کہ سکتی تب بھی اس صبح کا روزہ واجب ہو ،
٢. اور اگر حیض کا خون دس دن سے کم میں بند ہو جائے تو اگر نماز کا اتنا آخری وقت پا لے کہ جس میں غسل کر کے کپڑے پہن کر تکبیر تحریمہ کہ سکے تو اس پر اس وقت کی نماز واجب ہو جاتی ہے پس اس نماز کی قضا پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو وہ نماز اس پر واجب نہیں ہوتی ، یعنی وہ نماز معاف ہےاور روزہ کے لئے حکم یہ ہے کہ اگر رات کو پاک ہوئی اور پھرتی سے نہا سکنے کا وقت تو ہو لیکن ایک دفعہ بھی اللّٰہ اکبر نہیں کہ سکتی تب بھی اس دن کا روزہ واجب ہے پس اسے چاہیے کہ روزہ کی نیت کر لے اور صبح کو نہا لے اور اگر پھرتی سے غسل کرنے کا وقت بھی نہ ہو تو اس دن کا روزہ فرض نہیں ہو گا لیکن اس کے لئے دن میں کھانا پینا درست نہیں روزہ دار کی طرح رہے اور اس روزہ کی قضا دے ،
٣. اسی طرح رمضان شریف میں دن کو پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کھانا درست نہیں شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہیں ہو گا بلکہ اس کی قضا رکھنی پڑے گی ،
٤. کسی لڑکی نے پہلی دفعہ خون دیکھا اگر اس کو دس دن یا اس سے کم خون آئے تو سب حیض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ آئے تو پورے دس دن حیض ہے اور اس سے جتنا زیادہ ہو وہ سب استحاضہ ہے ،
٥. کسی عورت کو مثلاً تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینہ میں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہو چکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی غسل نہ کرے اور نہ نماز پڑھے اگر دس دن رات پورے ہونے پر یا اس سے پہلے مثلاً نویں دن خون بند ہو جائے تو ان سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں کچھ قضا نہیں پڑھنی پڑے گی اور یوں کہیں گے کہ عادت بدل گئی اس لئے یہ سب دن حیض کے ہوں گے اور اگر گیارہویں دن یعنی دس دن رات سے ایک لحظہ بھی زیادہ خون آیا تو اب معلوم ہوا کہ حیض کے فقط تین ہی دن یعنی مقررہ عادت کے مطابق اور باقی سب استحاضہ ہے پس گیارہوں دن نہائے اور عادت کے تین دن چھوڑ کر باقی دنوں کی جتنی نمازیں ہوئی ان سب کو قضا پڑھے ،
٦. حیض یا نفاس میں ایک مرتبعہ کے بدلنے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے مثلاً کسی عورت کے ہمیشہ چار دن حیض آتا تھا پھر ایک مہینہ میں پانچ دن خون آیا اور پھر دوسرے مہینہ میں پندرہ دن خون آیا تو ان پندرہ دن میں سے پانچ دن حیض کے اور دس دن استحاضہ کے ہیں ، اب عادت یعنی چار دن کا اعتبار نہیں کریں گے اور یہ سمجھیں گے کہ عادت بدل گئی اور پانچ دن کی عادت ہو گئی ہے نفاس کو بھی اسی پر قیاس کر لیجیے ،
٧. جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی چار دن خ ون آتا ہے کبھی سات دن اسی طرح بدلتا رہتا ہے کبھی دس دن بھی آجاتا ہے تو یہ سب حیض ہے ایسی عورت کو اگر کبھی دس دن سے زیادہ خون آجائے تو اس سے پہلی مہینہ میں جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے
٨. جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی مثلاً چھ دن حیض کے ہیں اور کبھی سات دن اب جو خون آیا تو کبھی بند نہیں ہوتا اس کے لئے نماز روزہ کے حق میں کم مدت یعنی چھ دن حیض کے قرار دئے جائیں گے اور وہ ساتویں دن نہا کر نماز پڑھے اور روزہ رکھے مگر سات دن پورے کرنے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی قضا کرے۔