٣. قرآن مجید کے علاوہ اور آسمانی کتا بوں مثلاً توریت و انجیل و زبور وغیرہ کے صرف اس مقام کو چھونا مکروہ و ممنوع ہے جہاں لکھا ہوا ہے سادہ مقام کا چھونا مکروہ نہیں اور یہی حکم قرآن مجید کی ان آیتوں کا ہے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے بعض کے نزدیک توریت و انجیل وغیرہ دیگر کتب سماویہ کا بھی وہی حکم ہے جو قرآن مجید کے مس کرنے کا بیان ہوا کیونکہ ان سب کی تعظیم واجب ہے لیکن یہ حکم ان کتب سماویہ کے لئے مخصوص ہونا چاہیے جن میں کوئی تحریف اور تغیر و تبدل نہیں ہوا ہے کتب تفسیر مع اصل قرآن و فقہ و حدیث کے چھونے کے متعلق تین قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان میں آیت قرآنی کی جگہ کا مس کرنا جائز نہیں ہے اس کے علاوہ دوسری جگہ کا مس کرنا جائز ہے اور یہ قواعد شرعیہ کے زیادہ موافق ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان کے مس کرنے میں متعلقاً کوئی کراہت نہیں ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ کتب تفسیر کا مس کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور کتب فقہ و کتب حدیث وغیرہ کا مس کرنا مکروہ نہیں ہے یہ تیسرا قول اظہر و احوط ہے کیونکہ کتب تفسیر میں قرآن مجید دوسری کتابوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں قرآن مجید کا ذکر مستقلاً ہوتا ہے نہ کہ تبعاً اس لئے یہ مشابہ بالمصحف ہے ،
٤. اگر قرآن مجید کا محض ترجمہ اردو فارسی وغیرہ میں لکھا ہوا ہو اصل عربی قرآن ساتھ میں لکھا ہوا نہ ہو تو اس کا چھونا امام ابو حنیفہ رحمت اللّٰہ کے نزدیک مکروہ ہے اور امام محمد و امام ابو یوسف رحمہ اللّٰہ کا صحیح قول یہی ہے ،
٥. قرآن مجید کا لکھنا مکروہ نہیں بشرطیہ کہ لکھے ہوئے کو ہاتھ نہ لگے اگرچہ خالی مقام کو چھوئے یہ امام ابو یوسف کے نزدیک ہے اور یہ قیاس کے زیادہ نزدیک ہے اور امام محمد کے نزدیک خالی مقام کو چھونا بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید کو مس کرنے والے کے حکم میں ہے اور یہی احوط ہے طحطاوی (رح) نے ان میں اس طرح تطبیق (مقابل کرنا) دی ہے کہ امام ابو یوسف کے قول میں کراہتِ تحریمی کی نفی ہے اور امام محمد کے قول میں کراہتِ تنزیہی کا اثبات ہے ایک آیت سے کم کا لکھنا مکروہ نہیں جب کہ کسی کتاب وغیرہ میں لکھے اور قرآن شریف میں ایک آیت سے کم لکھنا بھی جائز نہیں۔