قسم اول
١. جس کی فرضیت قرآن مجید کی ظاہر عبارت سے یا حدیث متواتر سے معلوم ہو جائےاس کا انکار کرنا- جیسے نماز- روزہ -حج و زکات وغیرہ
٢. حلال کو حرام اور حرام کو حلال جاننا- جبکہ وہ دلیل قطعی سے ثابت ہو اور حرام لعینہ ہو جیسے سود - زنا- جھوٹ بولنا-ناحق قتل کرنا وغیرہ
٣. اللہ تعالی کی ذات کا انکار کرنا
٤. اللہ تعالی کی کسی صفات کا انکار کرنا
٥. اللہ تعلی کے کسی نام کا انکار (خواہ ذاتی ہو یا صفاتی)
٦. اللہ تعالی کے لئے کوئی بری صفت ثابت کرنا یا اہانت کرنا- مثلا یوں کہنا ( نعوذ باللہ) اللہ تعالی ظلم کرتا ہے یا بھائی بہن اور اولاد والا ہےوغیرہ
٧. جھوٹی باتوں پر اللہ تعالی کو گواہ کرنا یا قسم کھانا کیونکہ یہ اہانت میں داخل ہے -
٨. اللہ تعالی کےقطعی احکام میں سے کسی حکم کا انکار
٩. اللہ تعالی کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا
٠١٠ فرشتوں کا انکار
١١. کسی کتاب الہی اور اس کے جز کا انکار یا توہین کرنا
١٢. کسی نبی کا انکار یا اہانت کرنا-
١٣. تقدیر کا انکار کرنا
١٤. قیامت اور حشر و نشر کا انکار کرنا
قسم دوم
وہ کلمات ہیں جن سے اشارہ انکار ثابت ہو مثلاً کسی نجومی یا کاہن کو سچا کہنا
قسم سوم
وہ کلمات ہیں جن سے شک صراحت ثابت ہو مثلاً کسی نے کہا مجھے اللہ کے کریم یا رزاق یا عادل ہونے میں شک ہے یا کہا کا مجھے فرشتوں یا اللہ تعالی کے رسولوں یا کتابوں کےوجود میں شک ہے یا قیامت کے ہونے میں شک ہے یا کسی اور قطعی الثبوت چیز مین سک کیا
قسم چہارم
وہ کلمات ہیں جن سے اشارةً شک ثابت ہو مثلاً کسی نےکہا کہ جنت میں مومنوں کو بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی اور کافر کو دوزخ میں بڑے بڑے عذاب ملیں گے اس نے سن کر کہا" کیا خبر"
قسم پنجم
وہ افعال ہیں جن سے انکار یا شک صراحتاً یا اشارة سمجھا جائے مثلاً کسی نے اہانت کی غرض سے قران مجید کو نجاست یا آگ میں ڈال یا اہانت کی غرض سے کعبہ کی طرف پیشاب کیا بعض علمائ کے نزدیک جہالت عذر نہیں ہے- پس بےخبری میں کلمہ کفر کہنے سے بھی کافر ہو جائے گا-
بعض کے نزدیک جہالت عذر ہے وہ کافر نہیں ہوا البتہ دوبارا نکاح پڑھوانا اور توبہ کرنی چاہیے
کسی نےجس وقت کفر کی نیت کی اسی وقت کافر ہو گیا- خواہ نیت کتنی ہی مدت بعد کے لئے ہو
مفتی کے لئے ضروری ہے کہ جب تک کسی سے کفر لازم کرنے والی بات نہ دیکھے بے دھڑک کسی مسلمان کو کافر نہ بنا دیا کرے ہو سکتا ہے کہ اس سے بلا قصد کلمہ کفر نکل گیا ہو یااس بات کے معنی سمجھ میں نہ آئے ہوں علماء نے لکھا ہے کہ جس مسئلے میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال اسلام کا ہو تو مفتی اور قاضی کو اس ایک احتمال اسلام پر فتوی دینا چاہئے ۔ اگر کوئی شخص کلمہ کفر کہےاور پھر انکار کر دے تو یہ بھی ایک قسم کی توبہ ہے اور اس کو کافر کہنا جائز نہیں ہے۔
ایمان سے زیادہ کوئی نعمت نہیں ۔ اس کی ہر وقت حفاظت کرنا واجب ہے اور اس کے ترقی کےلئے ہر وقت گناہوں سے بچنا اورعبادت میں لگےرہنا ضروری ہے، یہ نہ سوچےکہ پھرکبھی توبہ کر لیں گے، معلوم نہیں کس وقت موت آجائے اور توبہ کی مہلت ملے یا نہ ملے پس ہر وقت توبہ استغفار کرتے رہنا چاہئے۔