١. اگر کسی بیمار کا منھ قبلے کی طرف نہیں ہے اور وہ اس پر قادر بھی نہیں اور نہ اُس کے پاس کوئی دوسرا شخص ہے جو اس کا منھ قبلہ کی طرف پھیر دے یا آدمی تو ہے لیکن منھ پھیرنا بیمار کو نقصان دیتا ہے تو جس طرف اس کا منھ ہو اُسی طرف نماز پڑھ لے اور اگر دوسرے کی مدد سے قبلہ کی طرف منھ کر سکتا ہو اور ایسا آدمی موجود ہو اور اُس سے بیمار کو نقصان بھی نہ ہو تو وہ معذور نہیں ہے، اس کو قبلہ کی طرف منھ کرنا ضروری ہے ورنہ نماز درست نہیں ہو گی یہی معتمد ہے۔
٢. جس کو قبلہ کی طرف منھ کرنے میں کچھ خوف ہو خواہ وہ خوف دشمن کا ہو یا درندے کا یا چور کا تو وہ جس طرف قادر ہو اُسی طرف کو منھ کر کے نماز پڑہ لے، اگر اس کا عذر آسمانی ہو کسی مخلوق کی طرف سے نہ ہو مثلاً بیماری بڑھاپا، خوفِ دشمن وغیرہ تو بعد میں اُس نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر عذر مخلوق کی طرف سے ہو مثلاً قید میں ہو اور وہ لوگ اس کو روکیں تو بغیر قبلہ کے نماز پڑھ لے اور عذر دور ہونے پر اُس نماز کا اعادہ کرے۔
٣. کشتی میں فرض یا نفل پڑھے تو اس پر بھی قبلے کی طرف منھ کرنا واجب ہے اور نماز کے اندر کشتی گھومنے پر وہ خود بھی گھوم کر قبلے کی طرف پھرتا جائے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح ریل گاڑی میں بھی قبلے کی طرف منھ کرنا ضروری ہے اور جب نماز پڑھتے ہوئے ریل گھوم جائے اور قبلہ دوسری طرف ہو جائے تو یہ بھی نماز ہی میں گھوم جائے اور قبلہ کی طرف منھ کر لے ورنہ نماز درست نہ ہو گی لیکن اگر ریل گاڑی میں قبلے کی سمت پر قادر نہ ہو تو جس طرف پر قادر ہو اسی طرف منھ کر کے نماز پڑھ لے اور کھڑا ہونے پر قادر نہ ہونے کی صورت میں بیٹھ کر پڑھ لے، لیکن بلاوجہ قیام اور استقبال قبلہ کو ترک نہ کرے اور بہانہ تراشی نہ کرے، آج کل لوگ اس بات سے غافل ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے۔