٧. اگر کسی کو قبلے کی سمت میں شک ہوا اور مذکورہ علامتوں سے قبلہ معلوم کرنے سے عاجز ہے اس لئے اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ مقرر کئے بغیر ہی کسی سمت کو نماز پڑھ لی پھر اگر نماز ہی میں اس کا شک زائل ہو گیا کہ وہ ٹھیک قبلے کی جانب ہے یا قبلے کی جانب نہیں ہے یا کچھ نہ معلوم ہوا تو ہر حال میں نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد غلطی معلوم ہوئی یا کچھ نہ معلوم ہوا یا گمان غالب ہوا کہ اس نے صحیح قبلے کی طرف نماز پڑھی ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی نماز جائز نہ ہو گی اس لئے نئے سرے سے پڑھے کیونکہ شبہ کی صورت میں اس پر اٹکل لگانا (تہری) فرض تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس نے صحیح قبلے کی سمت نماز پڑہی ہے تو بالاتفاق اس کی نماز جائز ہو گی اس کا اعادہ نہ کرے۔
٨. اگر اٹکل سے ایک سمت کو قبلہ مقرر کیا لیکن نماز اس کے بجائے دوسری سمت کو پڑھی تو فتویٰ اس پر ہے کہ ہر حال میں دوبارہ نماز پڑھے۔
٩. اگر اٹکل سے کسی طرف کو گمان غالب نہ ہوا بلکہ اس کے نزدیک سب طرفیں قبلہ ہونے میں برابر ہوں تو اس میں تین قول ہیں بعض نے کہا کہ نماز میں تاخیر کریں یہاں تک کہ اس کے گمان میں ایک طرف قبلہ ظاہر ہو جائے، بعض نے کہا چاروں طرف کو ایک ایک دفعہ نماز پڑھ لیں یہی زیادہ صحیح و احوط ہے، بعض نے کہا چاروں اس کے حق میں برابر ہیں کسی ایک طرف کو اختیار کر کے اسی طرف کو نماز پڑہ لےعلامہ شامی نے اسی کو ترجیع دی ہے واللہ عالم۔
١٠. اگر اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھی پھر اس کی رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی پھر تیسری یا چوتھی رکعت میں اس کی رائے اس طرف کو بدل گئی جس طرف کو پہلی رکعت پڑھی تھی تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ وہ پہلی رکعت والی طرف کو اپنی نماز پوری کر لے یہی اوجہ ہے اگرچہ بعض نے کہا کہ نئے سرے سے پڑھے، اگر کسی شبہ کی وجہ سے اٹکل سے ایک رکعت ایک طرف کو پڑھی پھر رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور اس نے دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی اسی طرح چاروں رکعتیں چاروں طرف کو پڑھیں تو جائز ہے۔
١١. اٹکل سے قبلہ کو تجویز کرنا جس طرح نماز کے لئے ضروری ہے ویسے ہی سجدہ تلاوت کے لئے بھی ضروری ہے۔